پریس ریلیز

ایچ آر سی پی کو جبری گمشدگیوں کے مسودہ بل پر تحفظات ہیں

لاہور، 25 اکتوبر 2022۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے حال ہی میں منظور ہونے والے فوجداری قوانین (ترمیمی) بل 2022 پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اگرچہ یہ ترمیم جبری گمشدگی کے جرم کو تسلیم کرتی ہے اور اسے ایک ایسا عمل قرار دیتی ہے جس کے ذریعے ریاست کا کوئی کارندہ (کسی فرد /افرادکو اُن کی ) آزادی سے ‘غیرقانونی طور پر محروم’ کر دے مگر یہ ترمیم اِن ریاستی کارندوں پر سویلین نگرانی کی پہنچ میں لانے کے لیے نئے قانونی ڈھانچے کی ضرورت پوری نہیں کرتی۔ جبری گمشدگیوں پر قابو پانے کے لیے مؤثر قانون میں اِس طرح کی دفعہ کا ہونا ضروری ہے، خاص طور پر ایسے ہزاروں الزامات اور شہادتوں کے تناظر میں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اِس عمل کی ذمہ داری ریاستی ایجنسیوں پر عائد ہوتی ہے

ریاستی ایجنیسوں جیسے کہ آئی ایس آئی کے دائرہ اختیار کے تعین کے لیے بھی قانون سازی ضروری ہے۔ اس حقیقت کو مدِنظر رکھتے ہوئے کہ اِس ایجنسی نے اعلیٰ عدالتوں میں دعویٰ کیا تھا کہ اسے ‘ریاست مخالف سرگرمیوں’ میں ملوث لوگوں کو گرفتار کرنے کا ‘قانونی’ اختیار ہے۔ اس کے علاوہ، مسودہ قانون متاثرین  اور اُن کے اہلِ خانہ کو معاوضے کی ادائیگی کے معاملے کا احاطہ نہیں کرتا اور نہ ہی یہ مجرموں کی جوابدہی کے مسئلے کا حل پیش کرتا ہے۔

جبری گمشدگیوں کو ایک الگ قانون کے طور پر لیا جائے۔ اس رجحان کی روک تھام کے لیے ہونے والی قانون سازی میں یہ ضمانت دی جائے کہ جس کسی کو بھی ان کی آزادی سے محروم کیا جائے گا انہیں قانونی طور پر قائم حراستی مرکز میں رکھا جائے گا اور متاثرین، ان کے اہلِ خانہ اور گواہان کو انتقامی کاروائیوں سے تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ پاکستان کو جبری گمشدگیوں سے تمام افراد کی حفاظت کے عالمی میثاقی پر دستخط اور توثیق بھی کرنی ہو گی۔

ایچ آر سی پی یہ بھی سمجھتا ہے کہ ایسے قوانین تبدیل کیے جائیں جو فوج کو سویلین افراد کی تحقیقات اور ٹرائل کرنے کا اختیار تفویض کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کے دفاع کار ادریس خٹک جنہیں آٹھ ماہ تک لاپتہ رکھا گیا اور پھر سیکیورٹی ایجنسیوں نے اُن کی حراست تسلیم کی، کو آرمی ایکٹ 1952 کے تحت سزا ملنا محض اتفاق نہیں ہے۔

حنا جیلانی
چیئرپرسن