پریس ریلیز

ایچ آر سی پی کی جنرل باڈی سویلین خودمختاری، ماحولیاتی انصاف اور مالکانہ حقوق پر اتفاقِ رائے کا مطالبہ کرتی ہے

کراچی، 17 نومبر 2024: پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کی جنرل باڈی اپنے 38ویں سالانہ عام اجلاس کے اختتام پر انسانی حقوق کی صورت حال میں بِگاڑ اور جمہوریت کو درپیش خطرات پر فوری توجہ دینے کا مطالبہ کرتی ہے۔ کمیشن 1997 کے انسداد دہشت گردی ایکٹ میں مجوزہ ترمیم کی سخت مخالفت کرتا ہے، جس کا مقصد مسلح افواج  اور سول مسلح افواج کو 90 دن کی پیشگی حراست کا اختیار دینا ہے۔

ایچ آر سی پی کے مطابق، ریاست کو قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے، خواتین، بچوں اور خواجہ سراؤں کے خلاف تشدد کم کرنے، مزدوروں کے حقوق کے تحفظ، اور صحت و تعلیم کے حق کی فراہمی پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔ لیکن ریاست نے جمہوری اصولوں اور عوام کے بنیادی حقوق کی بجائے اختیارات اپنے آپ میں مرکوز رکھنے کو ترجیح دی ہے۔ ایچ آر سی پی تمام سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ سویلین بالادستی اور وفاقی نظام کے تحفظ پر اتفاق رائے پیدا کریں۔

حکومت ٹریڈ یونینوں کے استحکام پر توجہ مرکوز کرے اور باوقار معیارِ زندگی کے لیے درکار اِجرت مقرر کرنے کے لیے سنجیدگی سے سوچ بچار کرے، خاص طور پر پس ماندہ مزدوروں کے لیے۔ ایچ آر سی پی کا یہ بھی ماننا ہے کہ صحت اور تعلیم کی فراہمی ریاست کا بنیادی فریضہ ہے۔ طلبا یونینیں بحال کی جائیں اور جیلوں میں قید ماہی گیروں، بے وطن لوگوں اور غربت کے سبب بڑھتی خودکشیوں پر خصوصی توجہ دی جائے۔ تھر میں خودکشیوں کے بڑھتے رجحان پر خاص طور پر توجہ دی جائے۔  ٹریڈ یونین رہنماؤں کو اعتماد میں لے کر متناز‏عہ صوبائی لیبر کوڈز پر نظرثانی کی جائے۔

کمیشن کا ماننا ہے کہ ماحولیاتی ایمرجنسی اب ملک کے وجود کے لیے ایک خطرہ بن چکی ہے۔ پنجاب میں صحت کے لیے سنگین خطرات کا باعث بننے والی مہلک فضائی آلودگی اور خاص طور پر زیریں سندھ ، جہاں چھوٹے کسانوں اور کاشتکاروں نےگرین پاکستان انیشی ایٹو کے تحت دریائے سندھ پر نہروں کی تعمیر پر اعتراضات اٹھائے ہیں، میں پانی کی قلت کا فوری خطرہ سنگین ترین مسائل ہیں۔

ایچ آر سی پی گلگت بلتستان زمینی اصلاحات بل 2024 کی شدید مخالفت کرتا ہے، جس کے ذریعے ‘ترقیاتی اصلاحات’ کے نام پر نجی، اجتماعی اور آبائی زمین پر قبضے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ زمین پر طاقتور مفاد پرست عناصر کا یہ قبضہ عوام کو مزید پسماندہ اور بے چینی میں اضافہ کرے گا۔ ریاست کو گلگت بلتستان کو اس کے آئینی حقوق دینا ہوں گے جو اس کے رہائشیوں کا دیرینہ مطالبہ ہے۔

ایچ آر سی پی قلیل مدتی جبری گمشدگیوں، خاص طور پر سیاسی مخالفین کے خلاف اس کے بڑھتے ہوئے استعمال کی مذمت کرتا ہے، اور ایک بار پھر جبری گمشدگیوں سے متعلق تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ کی نااہلی کی وجہ سے ان کی برطرفی کا مطالبہ کرتا ہے۔

ریاست کا رویہ بلا روک ٹوک تشدد اور انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے سامنے پسپائی کا نمونہ ثابت ہوا ہے۔ عمر کوٹ اور کوئٹہ میں توہینِ رسالت کے دو ملزموں کا ماورائے عدالت قتل، ٹی ایل پی کے اصرار پر پولیس کی ملی بھگت سے جماعتِ احمدیہ کے افراد کی قبروں اور جائے عبادات پر حملے، اور پنجاب کی جیلوں میں آن لائن توہینِ مذہب کے الزام میں  سینکڑوں لوگوں کی حراست جن کی اکثریت نوجوانوں پر متشتمل ہے، اور اُن پر ایف آئی اے کا مبینہ تشدد اِس کا واضح ثبوت ہے۔  ماورائے عدالت قتل، خاص طور پر سندھ میں، کے تشویشناک حد تک زیادہ واقعات تحقیقات اور مجرموں کے محاسبے کا تقاضا کرتے ہیں۔

ایچ آر سی پی کو اس امر پر بھی تشویش ہے کہ اس کے چئیرپرسن کو پولیس نے پوچھ گچھ کے لیے حراست میں رکھا اور کمیشن کے اراکین کے خلاف چار مقدمے درج ہیں۔ یہ سب کچھ انسانی حقوق کے لیے اُن کی جدوجہد کی وجہ سے ہوا ہے۔

بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں شدت پسندی میں شدید اضافہ بشمول تعمیراتی مزدوروں، کان کنوں اور پولیو ورکرز پر حملے ہمیں تیزی سے ایک ایسے مقام کی طرف لے جا رہا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہو گی۔ ایچ آر سی پی بلوچ اور بلوچ- پشتون رہنماؤں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ایک ساتھ مل کر بیٹھیں اور صوبے کے بحران کا کوئی آزادانہ حل نکالیں۔ کُرم میں پشتون رہنماؤں کو بھی ضلع میں مہینوں سے جاری کشیدگی ختم کرنے کے لیے ایسا ہی کرنا پڑے گا۔

ایچ آر سی پی انسانی حقوق کے کارکن ادریس خٹک کی حراست پر خصوصی توجہ چاہتا ہے جو من گھڑت الزامات پر فوجی ٹرائل کے بعد پانچ برسوں سے پابند سلاسل ہیں۔ انہیں فوری و غیرمشروط طور پر رہا کرنا چاہیے۔

اسد اقبال بٹ
چیئرپرسن