پریس ریلیز

ایچ آر سی پی کی رپورٹ اقلیتوں کے خلاف ہجوم کے حملوں کی شدت اور تسلسل کی مذمت کرتی ہے

اسلام آباد، 26 فروری 2025: پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں مذہبی اقلیتوں کے گھروں اور عبادت گاہوں پر ہجوم کے حملوں، احمدیوں کی قبروں کی مسلسل بے حرمتی اور کمیونٹی کے افراد کی غیر قانونی گرفتاریوں کے ساتھ ساتھ ہندو اور مسیحی خواتین اور بچیوں کو لاحق جبری تبدیلی مذہب کے خطرے کی نشاندہی کی گئی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اکتوبر 2024 تک 750 سے زائد افراد توہینِ مذہب کے الزامات کے تحت قید تھے۔ عقیدے کی بنیاد پر کم از کم چار قتل کے واقعات کی تصدیق کی گئی، جن میں سے تین میں احمدیہ کمیونٹی کے افراد کو نشانہ بنایا گیا۔

“محصور:2023-24 میں مذہب یا عقیدے کی آزادی کی صورتحال” کے نام سے شائع ہونے والی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سوشل میڈیا پر پھیلنے والی غلط معلومات توہین مذہب کے مقدمات کے بڑے پیمانے پر اندراج کا سبب بن رہی ہیں۔ رپورٹ میں جڑانوالہ اور سرگودھا میں مسیحی برادری پر دو ہجوم کے حملوں کا تجزیہ کرتے ہوئے ان سوشل میڈیا پوسٹس کی وسعت اور تسلسل کی نشاندہی کی گئی ہے، جنہوں نے توہینِ مذہب کے الزامات کے بعد تشدد کو ہوا دی۔

رپورٹ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ نفرت اور تشدد میں ملوث افراد کو حاصل سزا سے استثنا بدستور برقرار ہے۔ اگرچہ پنجاب میں اسپیشل برانچ نے تحقیقات کی ہیں، لیکن ان نیٹ ورکس کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی نہیں کی گئی جو مبینہ طور پر افراد کو جھوٹے توہینِ مذہب کے مقدمات میں پھنسانے میں ملوث ہیں۔ تاہم، رپورٹ میں بعض مثبت رجحانات کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جیسے کہ بعض موقعوں پر عدالت نے عقیدے کی بنیاد پر تشدد کے متاثرین اور ملزمان کو ریلیف دیا۔

یہ رپورٹ ایچ آر سی پی کے قومی بین المذاہب ورکنگ گروپ کے اجلاس میں پیش کی گئی، جو تمام مذہبی اقلیتوں اور فرقوں کے لیے اجتماعی جدوجہد اور ایڈووکیسی کا ایک پلیٹ فارم ہے۔

ورکنگ گروپ کے اراکین نے اس امر پر زور دیا کہ مذہبی اقلیتوں کو غیر متناسب طور پر متاثر کرنے والے امتیازی قوانین میں کم از کم طریقہ کار کی سطح پر تبدیلیاں متعارف کرائی جائیں۔ انہوں نے تجویز کیا کہ ایک آئینی ترمیم کے ذریعے مذہبی اقلیتوں کو صدر اور وزیرِاعظم کے عہدے پر فائز ہونے کا حق دیا جائے۔ اراکین نے ضلعی امن کمیٹیوں میں مسلم علماء کے متعصبانہ کردار، ہجوم کے حملوں کے متاثرین کے لیے ناکافی معاوضے، اور توہینِ مذہب کے الزامات کا سامنا کرنے والوں کے لیے قانونی معاونت کے نظام کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

اجلاس میں غریب برادریوں میں مذہبی تبدیلیوں کے وسیع رجحان اور مذہبی اقلیتوں کے لیے قبرستانوں کی عدم دستیابی کی بھی نشاندہی کی گئی۔ دیگر سفارشات میں اقلیتوں کے حق میں قانون سازی کی جانچ انسانی حقوق کی وزارت سے کرانے، اقلیتی برادریوں کے شادی سے متعلق قوانین کا نفاذ، اور اقلیتوں کے لیے سیاسی گنجائش بڑھانے سے متعلق اقدامات، نیز پارلیمنٹ میں اقلیتی کاکس کا قیام شامل ہے۔

اجلاس کے اختتام پر، ایچ آر سی پی کے کونسل ممبر فرحت اللہ بابر نے ایک کمیشن کے قیام کی تجویز دی، جو انتہائی دائیں بازو کے وکلاء گروپس کی جانب سے لوگوں کو توہین مذہب کے جھوٹے مقدمات میں پھنسانے کے واقعات کی تحقیقات کرے۔

اسد اقبال بٹ
چیئرپرسن

The report can be accessed here.