پریس ریلیز

ایچ آر سی پی کی قومی گول میز کانفرنس نے قومی فائر وال کی تنصیب اور بڑھتی ہوئی سنسرشپ کے خدشات پر اظہارِتشویش جبکہ پنجاب ہتک عزت قانون ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے

اسلام آباد، 28 جون 2024۔ آج ایچ آر سی پی کی منعقد کردہ قومی گول میز کانفرنس میں صحافیوں، ڈیجیٹل حقوق کے ماہرین اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے ریاست سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ملک میں شہری آزادیوں اور جمہوریت کی بگڑتی صورتِ حال پر توجہ دے۔

قانون و پالیسی امور کے ماہر محمد آفتاب عالم نے حال ہی میں منظور ہونے والے پنجاب ہتک عزت قانون 2024 کے بنیادی نکات پر اظہار خیال کیا۔ ‘نشریات’، ‘اخبار’، اور ‘صحافی’ جیسی کلیدی اصطلاحات کی تعریف میں بنیادی تبدیلیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے انہوں نے اِس قانون کے تحت متوازی عدالتی نظام کی تشکیل اور بارِ ثبوت ملزمان پر تھونپنے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

صحافی اور محقق عدنان رحمت کا کہنا تھا کہ قانون سیاسی و ریاستی اشرافیہ کو عام شہریوں سے بالاتر قرار دیتا جبکہ امتیازی سلوک کو قانونی ڈھال فراہم کرتا ہے۔ ایچ آر سی پی کے کونسل رکن فرحت اللہ بابر نے کہا کہ یہ قانون ریاست اور سماج کو غیرضروری طاقت سے نوازنے کا ایک اور نیا حربہ ہے اور ساتھ ہی ساتھ حق ِمعلومات جیسے قوانین کی اہمیت ختم کرنے کے مترادف ہے۔

میڈيا مَیٹرز فار ڈیموکریسی (ایم ایم ایف ڈی) کی شریک بانی صدف خان نے قومی فائر وال کی تنصیف کے سرکاری منصوبوں کے بارے میں پائی جانے والی قیاس آرائیوں پر گفتگو کی اور کہا کہ اِس سے انٹرنیٹ پر سرگرمیوں کی کڑی نگرانی ہو گی اور نتیجتاً سنسرشپ کا دائرہ وسیع ہو گا۔اُن کا کہنا تھا کہ یہ غیرمعقول منصوبہ ہے جس سے خوف اور بداعتمادی کی فضا پیدا ہوئی ہے۔ ایم ایم ایف ڈی کے بانی اسد بیگ نے اِسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اِس طرح کا اقدام آزاد پیشہ ور ملازمت اور آن لائن تجارت پر شدید منفی اثرات مرتب کرے گا۔

ماہرِ تعلیم اور صحافی توصیف احمد خان نے ذرائع ابلاغ پر پابندیوں کی تاریخ کا سراغ لگایا اور مسئلے کے حل کے لیے لائحہ عمل پیش کیا۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ نے کہا کہ کشمیر اور غزہ پر مواد بلاک کرنے پر سول سوسائٹی سوشل میڈيا کو جوابدہ ٹھہرائے۔ سابق سینیٹر افراسیاب خٹک کا کہنا تھا کہ ان معاملات میں مسلسل مداخلت کرنے کی پاداش میں اسٹیبلشمنٹ کا محاسبہ کیا جائے۔ سینئیر صحافی سہیل سانگی نے کہا کہ ذرائع ابلاغ سے جُڑے لوگوں کے کام کے حالات اور صحافت کی آزادی کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔

شرکاء نے پنجاب ہتک عزت قانون کی فی الفور منسوخی کی سفارش کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ‘ڈیجیٹل حقوق کو دستور کا حصہ بنایا جائے’۔ الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے قانون 2016 میں ترمیم پر بحث بھی دوبارہ شروع کی جائے۔ مزیدبرآں، جبری گمشدگیوں جنہیں اکثر اختلافی آراء کو دبانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، کو جرم قرار دینے کے لیے قانون منظور کیا جائے۔

ایچ آر سی پی کی شریک چئیر منیزے جہانگیر کی رائے تھی کہ صحافیوں، وکیلوں اور کارکنوں کو یکجا ہو کر پارلیمان کے سامنے اپنے مطالبات رکھنے چاہییں۔ ایچ آر سی پی اسلام آباد چیپٹر کی وائس چئیر نسرین اظہر نے اس سے اظہار ِاتفاق کرتے ہوئے کہا کہ آن لائن گمراکن معلومات کے مقابلے کے لیے سول سوسائٹی کے کارکنوں کو پہلے سے زيادہ منظّم ہونے کی ضرورت ہے۔

ایچ آر سی پی کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق نے گول میز کانفرنس کی بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ ملک میں غریب دشمن سیاسی ایجنڈا لایا جا رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ’سیاسی قیادت، بڑے کاروباری اداروں اور ریاستی اسٹیبلشمنٹ کے مابین گٹھ جوڑ صاف نظر آ رہا ہے’۔ اس طرح کے رجعتی ہتھکنڈوں کے مقابلے کے لیے انسانی حقوق کی تمام تحاریک کو متحد ہونا پڑے گا تاکہ مطالبات کا منشور تیار کر کے پارلیمان میں پیش کیا جا سکے۔

اسد اقبال بٹ
چئیر پرسن