پریس ریلیز

ایچ آر سی پی کی کانفرنس میں 1973 کے آئین کا تنقیدی جائزہ لیا گیا

اسلام آباد، 28 اگست 2023۔ 1973 کے آئین کے 50 برس مکمل ہونے کی مناسبت سے منعقدہ ایک کانفرنس میں پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق نے کہا کہ آج کے اجتماع نے ہمیں موقع فراہم کیا ہے کہ ہم آئين کو شہریوں اور ریاست کے درمیان سماجی معاہدہ تصور کر کے اِس کا بغور جا‏ئزہ لیں۔ اِس تناظر میں، ایچ آر سی پی کی چیئرپرسن حنا جیلانی نے کہا کہ آئین زندہ دستاویز کے طور پر صرف اُسی صورت میں کام کر سکتا ہے جب پارلیمان اِسے سماج اور ریاست کے بدلتے تضاضوں کے مطابق ڈھالنے کی دانشمندی اور دُوراندیشی رکھتی ہو۔

تقریب کےپہلے سیشن میں پاکستان میں آئینی تاریخ کے ارتقاء پر تنقیدی نظر ڈالتے ہوئے، ایچ آر سی پی کی کونسل رُکن نسرین اظہر نے نشاندہی کی کہ قرارداد مقاصد نے آئین کے حصے کے طور پر مذہبی اقلیتوں کی محرومیوں میں اضافہ کیا ہے۔ محقّق اور آئینی معاملات کے ماہر ظفر اللہ خان نے کہا کہ آئین کو ‘ریاستی معاملات چلانے کے لیے رہنما اصولوں کی کتاب’ تصور کرنا چاہیے۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ آئین پر نظرثانی کر کے اِسے اِس کی اصل روح اور سماج میں ہونے والی تبدیلیوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے بنیادی حقوق کے باب میں عالمی انسانی حقوق شامل کیے جائیں۔ نشست کی نظامت کرتے ہوئے، ماہرِ تعلیم ڈاکٹر ناظر محمود نے کہا کہ آئين میں بچوں، نوجوانوں اور معذوریوں سے متاثرہ افراد کے حقوق کو اہم مقام دینے کی ضرورت ہے۔

صحافی عاصمہ شیرازی نے آئین اور وفاق کے درمیان تعلق پر دوسرے سیشن کی نظامت کرتے ہوئے کہا کہ ’مخلوط پلس ریاست نے سیاسی جماعتوں کو کمزور کر دیا ہے۔ سابق سینیٹر افراسیاب خٹک کا کہنا تھا کہ کہ دستوری ریاست اور حقیقی ریاست کے درمیان تضاد اور ‘اکثریت کے جبر’ نے بلوچستان اور سابق فاٹا جیسے ‘مضافات’ کو پسماندگی میں دھکیلا ہے۔ عوامی پالیسی کے ماہر عبداللہ دایو نے کہا کہ ایک اور میثاقِ جمہوریت کی ضرورت ہے جس میں مرکزی دھارے کی جماعتوں اور چھوٹی قوم پرست سیاسی جماعتوں کو شامل کیا جائے تاکہ وفاق پر اعتماد پیدا کیا جا سکے۔

تیسرے پینل نے اِس امر کا جائزہ لیا کہ آئین نے خطرات میں گھرے اور پس ماندہ لوگوں کے حقوق کوکس حد تک تحفظ فراہم کیاہے۔ ایچ آر سی پی کی رُکن فاطمہ عاطف نےسیشن کی نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے نے کہا کہ مذہب اور ریاست کی علیحدگی ضروری ہے۔ خواجہ سرا برادری کے حقوق کی کارکن نایاب علی کا کہنا تھا کہ آئین اِنسانی عظمت اور مساوات کے حق کی ضمانت تو دیتا ہے مگر کھلے الفاظ میں یہ واضح نہیں کرتا کہ یہ حقوق صنفی اقلیتوں کو بھی حاصل ہیں۔ آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس (پاکستان) کے چیف کوآرڈینیٹر رحمان باجوہ نے اِسی نکتے کو آگےبڑھاتے ہوئے کہا کہ آئین نے غیر رسمی مزدوروں کے حقوق کا واضح طور پر تحفظ نہیں کیا۔

انسانی حقوق کے کارکن علی احمد جان نے آئین کی ایک بنیادی خامی کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ یہ گلگت بلتستان اور ’ثقافتی اقلیتوں‘ کی شناخت کو تسلیم نہيں کرتا جس کی وجہ سے اُن کے خطرات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ محقّق اور صنفی حقوق کی کارکن ڈاکٹر صبا گل خٹک نے کہا کہ آئین نے پناہ گزینوں کے روزگار کے حق کا تحفظ نہیں کیا جبکہ اسلام آباد ہندو پنچایت کے صدر پریتم داس راٹھی نے مذہبی اقلیتوں کو تشدد سے بچانے میں ناکامی پر آئین کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اِسی طرح نیشنل کمیشن فار جسٹس اینڈ پیس کے کارکن، طارق غوری نے مطالبہ کیا کہ مذہبی اقلیتوں کے حقوق سے متعلق جناح کی 11 اگست کی تقریر کو آئین کا حصہ بنایا جائے۔

چوتھے سیشن میں جس کی نظامت بلدیاتی حکومت سے متعلق امور کی ماہر فوزیہ یزدانی کی، صحافی منیزے جہانگیر نے آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت اظہارِ رائے کی آزادی پر عائد پابندیوں پر سوال اُٹھایا۔ سابق رُکن قومی اسمبلی دانیال عزیز نے آئینی خلاف ورزیوں کی حمایت کرنے پر عدلیہ کے کردار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے تجویز پیش کی کہ جماعتوں کے اتفاقِ رائے سے مشترکہ مفادات کونسل کو مضبوط کیا جائے۔ شہید بھٹو فاؤنڈیشن کے چیف ایگزیکٹیو آصف خان نے تجویز پیش کی کہ بائیں بازو کے رجحانات رکھنے والی جماعتوں کو مزدوروں کے حقوق کوآئینی تحفظ کو استحکام دینے کے لیے قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔ سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اِن کلمات کے ساتھ اجلاس کا اختتام کیا کہ اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ 9 مئی کے فسادات کی تمام سیاسی جماعتوں کو مذمت کرنی چاہیے لیکن اِن فسادات کو غیر جمہوری قوتوں کے اختیارات وکردار کو وسعت دینے کے لیے بطورِ جواز استعمال نہ کیا جائے۔

حنا جیلانی
چئیرپرسن