پریس ریلیز

تمام سیاسی جماعتوں کو مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کا عہد کرنا چاہیے

اسلام آباد، 25 جولائی 2023۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی ) کے زیرِ اہتمام ایک مشاورت میں آج انسانی حقوق کے دفاع کاروں نے تمام سیاسی جماعتوں پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے منشور اور پالیسیوں میں مذہبی اقلیتوں اور فرقوں کے حقوق کے تحفظ اور فروغ کا عہد کریں۔

ایچ آر سی پی کی کونسل ممبر نسرین اظہر نے مذہبی اقلیتوں اور فرقوں بالخصوص احمدی برادری کے خلاف بڑھتے ہوئے منصوبہ بند مظالم کی جانب توجہ مبذول کروائی، جبکہ ماہر ِتعلیم اور ایچ آر سی پی کےممبر ڈاکٹر اے ایچ نیئر نے نشاندہی کی کہ تعلیم ‘نظریات کا میدانِ جنگ’ بنی ہوئی ہے، اور زیادہ تر طالب علموں کوکبھی بھی مذہبی تنوع کی ضرورت و نوعیت کے بارے میں آگاہ نہیں کیا گیا۔

عدالتِ عظمیٰ پاکستان کی طرف سے اقلیتوں کے لیے تشکیل دیے گئے ایک رکنی کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر شعیب سڈل نے وضاحت کی کہ اقلیتوں کے امور کو مذہبی معاملات سے الگ کرنے کی تجویز کابینہ کو بھیج دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی اقلیتوں میں سے مزید پولیس افسران کی بھرتی کے لیے اقدامات تو کیے گئے تھے مگر عدالتِ عظمیٰ کے 2014 کے فیصلے کے تحت مذہبی اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کے لیےتجویز کی گئی خصوصی پولیس فورسز تمام صوبوں میں موجود نہیں ۔ پولیس افسر عبداللہ نے کہا کہ عبادت گاہوں کی مؤثر حفاظت کا واحد طریقہ یہ ہے کہ کانسٹیبل کی سطح پر پولیس اہلکاروں کو تمام مذہبی برادریوں کے حقوق کے حوالے سے حساس بنایا جائے۔

انسانی حقوق کے دفاع کار عامر محمود نے پولیس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ مقامی سطح پر دائیں بازو کے ملاؤں کے دباؤ کی وجہ سے احمدیوں کی جائے عبادات کی بے حرمتی میں مبینہ طور پر ملوث ہے۔ ہندو برادری کے نِچلے طبقے کے نمائندے سرون کمار بھیل ایڈووکیٹ نے سندھ میں چائلڈ میرج ایکٹ پر عمل درآمد نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا۔ مسیحی برادری سمیت مذہبی اقلیتوں کے دیگر نمائندوں نے اُن مسیحی شہریوں کی حالتِ زار اُجاگر کی جو توہینِ رسالت کے الزامات پر سزائے موت کے قید ی کی حیثیت سے جیل میں بند ہیں۔

ایچ آر سی پی کے کونسل ممبر فرحت اللہ بابر نے مشاورت کے اختتامی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ آئین اِس حوالے سے تضادات کا شکار ہے کہ اِس نے ایک طرف تو مذہبی اقلیتوں کو مساوی حقوق کی ضمانت دی ہے جبکہ دوسری طرف اُنہیں بعض سرکاری عہدے رکھنے سے محروم رکھا ہے۔ آن لائن توہینِ مذہب کو ناقابلِ دست اندازی جرائم قرار دینے پر ایف آئی اے کی تعریف کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ توہینِ مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے مزید کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ اُنہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ ریاست نوجوان ہندو اور مسیحی خواتین کےمذہب کی جبری تبدیلی کے مسئلے کو نظرانداز کرتی رہی ہے ۔ اُن کا مزید کہنا تھاکہ ‘مذہبی امور اور اقلیتی امور الگ الگ معاملات ہیں’۔

حنا جیلانی
چیئرپرسن