پریس ریلیز
حکومت مہاجرین کو یکم نومبر تک ملک بدر کرنے کا فیصلہ واپس لے
اسلام آباد، 18 اکتوبر 2023۔ آج منعقدہ ہونے والے ایک اعلیٰ سطحی مشاورتی اجلاس میں پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ یکم نومبر تک غیر دستاویزی غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کا اپنا فیصلہ فوری طور پر واپس لے۔ یہ فیصلہ نگراں حکومت کے مینڈیٹ کے اندر نہیں آتا ، اس کے علاوہ یہ جبری وطن واپسی کے مترادف ہے، جسے بین الاقوامی قانون تسلیم نہیں کرتا ، اور یہ غیر متغیر طور پر غریب اور کمزور افغان مہاجرین اور سیاسی پناہ کے طالبوں بشمول خواتین، بچوں، بوڑھوں، معذوری کا شکار افراد اور ان افغانوں کو متاثر کرے گا جو اپنے پیشوں کی وجہ سے خطرے کی زد میں ہیں۔
شرکاء میں سول سوسائٹی کے کارکنان، وکلاء، سیاسی رہنما بشمول سابق سینیٹر افراسیاب خٹک، افغان مہاجرین کمیونٹی کے نمائندوں اور یو این ایچ سی آر اور آئی او ایم کے نمائندے شامل تھے۔
سابق سینیٹر اور ایچ آر سی پی کونسل ممبر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پناہ گزینوں کے بارے میں ملکی قوانین کی عدم موجودگی ان کے حقوق کے تحفظ میں ناکامی کا کوئی عذر نہیں ہے، کیونکہ افغانستان اور یو این ایچ سی آر کے ساتھ سہ فریقی معاہدے کے تحت پاکستان پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ انہوں نے حکومت اور پناہ گزینوں کے درمیان ایک پل کے طور پر قومی پناہ گزین کونسل کے قیام کی سفارش کی تاکہ مؤخر الذکر کو اپنے تحفظات کے اظہار کا موقع دیا جاسکے۔
ایچ آر سی پی کونسل ممبر سعدیہ بخاری نے ایک حالیہ فیکٹ فائنڈنگ مشن کے مشاہدات پیش کیے، جس سے معلوم ہوا ہے کہ اسلام آباد میں متعدد افغان بستیوں کو سی ڈی اے نے مسمار کیا ہے۔ یہ اقدام بظاہر انسداد تجاوزات مہم کا ایک حصہ ہے۔ تاہم، رہائشیوں کی اکثریت کے پاس پی او آر کارڈز موجود ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ غیر ملکیوں کے بارے میں حکومتی نوٹیفکیشن کے بعد پولیس نے انہیں ہراساں کیا ، دھمکیاں دیں اور ان سے بھتہ وصول کیا ۔
پناہ گزینوں کے حقوق کی محقق ڈاکٹر صبا گل خٹک نے مہاجرین اور پناہ گزینوں کی تعداد کے بارے میں درست اور عوامی سطح پر دستیاب اعداد و شمار کی ضرورت پر زور دیا تاکہ ان کی جائز ضروریات کا اندازہ لگایا جا سکے۔ شرکاء نے اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے اتفاق کیا کہ دستاویزات کی عدم موجودگی کا مطلب ہے کہ حقوق کی خلاف ورزیوں کا زیادہ امکان موجود ہے اور یہ کہ مکمل طور پر سیکورٹی پر مبنی تحفظات کی بنا پر پوری کمیونٹی کو ملک بدر کرنا اجتماعی سزا کے مترادف ہے۔ انہوں نے مقررہ مدت پر مبنی شہریت کا بھی مطالبہ کیا جو طویل مدتی رہائشیوں کو بطور شہریت اختیار کرنے کا موقع دے گی۔ سابق ایم این اے محسن داوڑ نے کہا کہ انہوں نے جس خارجہ تعلقات کمیٹی کی سربراہی کی تھی اس نے متفقہ طور سفارش کی تھی کہ پاکستان 1951 کے مہاجرین کنونشن پر دستخط کرے۔
افغان مہاجرین کی کمیونٹی کے نمائندوں نے یہ بھی کہا کہ ایک ماہ سے کم عرصے میں کئی لاکھ پناہ گزینوں کے لیے افغانستان واپس جانا انسانی طور پر ممکن نہیں کیونکہ بہت سے لوگوں کے لیے پاکستان ہی واحد گھر ہے ۔ یو این ایچ سی آر کے نمائندوں نے کہا کہ پناہ گزینوں کی کسی بھی قسم کی وطن واپسی رضاکارانہ ، وقار اور حفاظت کے بین الاقوامی معیارات کے مطابق اور واپسی اور انضمام کے لیے باخبر رضامندی پر مبنی ہونی چاہیے۔ آئی او ایم کے ایک نمائندے نے کہا کہ ایجنسی ان معیارات کی تعمیل میں پاکستانی حکومت کی مدد کے لیے وسائل فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔
اجلاس کے اختتام پر ایچ آر سی پی کی چیئرپرسن حنا جیلانی نے کہا کہ ‘تمام پناہ گزینوں اور سیاسی پناہ کے طالبوں کی مخصوص ضروریات پر غور کیے بغیر ان پر کثیرالمقاصد حل کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔’ پناہ گزینوں سے متعلق پالیسی کی دانستہ غیر موجودگی میں بھی پاکستان بین الاقوامی رواجی قانون کا پابند ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسی کسی بھی پالیسی کو انسانی خدشات کو سلامتی کے خدشات پر فوقیت دینی چاہیے۔
حنا جیلانی
چیئرپرسن