پریس ریلیز

ریاست جنوبی پنجاب کی دیرینہ محرومیوں کا مداوا کرے

ملتان: 27 اگست 2022۔  ایچ آر سی پی سیلاب زدہ علاقوں کے متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتا ہے۔ ہم اس بات سے آگاہ ہیں کہ یہ ایسی آفت ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ عین اسی وقت، یہ بھی واضح ہے کہ متاثرین کی امداد اور تحفظ میں حکومت اور مقامی انتظامیہ کا کردار مایوس کن ہے۔ یہ امر باعث تشویش ہے کہ ایسے رضاکار اور این جی اوز جو سیلاب زدہ علاقوں میں امداد فراہم کرنے کے خواہاں ہیں، مقامی انتظامیہ ان کی کاوشوں کی حمایت کرنے کی بجائے ان کا راستہ روک رہی ہے۔ موجودہ صورتحال اس محرومی کی عکاس ہے جس کا سرائیکی وسیب کو ایک طویل عرصے سے سامنا ہے۔ ایچ آر  سی پی نے اپنی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں نظرانداز کیے گئے ان شعبوں کی نشاندہی کی ہے جو سرائیکی عوام کے سیاسی، معاشی اور سماجی حقوق کی پامالی کے ذمہ دار ہیں۔

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے آج ملتان میں اپنی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ ‘جنوبی پنجاب: استحصال، محرومیوں کا گڑھ’ میں نقصان دہ سماجی روایات کے ہاتھوں خواتین کے استحصال، مقامی ہندوؤں میں مذہب کی جبری تبدیلی کے واقعات، صنعتی و جبری مزدوروں کے کام کار کے برے حالات، اور چولستان میں مقامی لوگوں کی اراضی کی غیر منصفانہ الاٹمنٹ کے الزامات کو اجاگر کیا ہے۔ یہ الزام بھی سامنے آیا کہ مقامی زمینوں کی غیر شفاف الاٹمنٹ سے مستفید ہونے والوں میں فوج بھی شامل ہے۔ زمینوں کی الاٹمنٹ کی اس غیرمنصفانہ پالیسی کا خمیازہ مقامی برادریوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

جنوبی پنجاب کے مختلف علاقوں کے دوروں اور سرکاری حکام و سول سوسائٹی کے ساتھ مشاورت  کو مدِنظر رکھ کر رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ وفاقی اور صوبائی  سطح پر تمام متعلقہ فریقین سرائیکی شناخت کو تسلیم کرنے اور امن و امان کو بہتر بنانے کے لیے پولیس کے باضابطہ اور موثر نظام تک رسائی کو یقینی بنانے کے لیے سیاسی مکالمے کا آغاز کریں۔ ریاست کو صنف پر مبنی تشدد اور امتیازی سلوک، جیسے کہ مذہب کی جبری تبدیلی اور جبری شادیوں کی روک تھام اور جنوبی پنجاب میں خواجہ سراؤں کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے بھی حکمت عملی تشکیل دینی ہو گی۔

مذہبی اقلیتوں کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، زمینوں پر قبضے اور توہین رسالت کے قوانین کے ظالمانہ استعمال سے بچایا جائے مزدوروں کی مناسب اجرت اور سماجی تحفظ کے حقوق کو یقینی بنایا جانا چاہیے، ضلعی نگران کمیٹیوں کو  فعال کیا جائے تاکہ وہ جبری مشقّت کے واقعات پر نظر رکھیں اور انہیں رپورٹ کریں۔ کسانوں کی شکایات کے ازالے کے لیے بھی ضلعی سطح کی کمیٹیاں قائم کی جائیں۔ اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ملک کے بااثر ایوانوں میں چولستان کے لوگوں کی آواز و نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے، اس علاقے پر خصوصی توجہ دی جائے، جبکہ علاقے کی زمین صرف مقامی چولستانیوں کو دی جائے اور اس میں کسی قسم کا مذہبی امتیاز نہ برتا۔

انسانی حقوق کے قومی اداروں جیسے کہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق اور قومی کمیشن برائے حقوقِ نسواں کو ان حقوق کی خلاف ورزیوں سے نمٹنے کے تمام مراحل میں شامل کیا جائے۔ ایچ آر سی پی نے ایک بار پھر مطالبہ کیا ہے کہ قانون سازی کر کے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا قومی کمیشن قائم کیا جائے۔ ریاست کو خطے میں صحت و تعلیم کے نظام اور انتظامی ڈھانچے کو مزید مستحکم کرنا چاہیے، اور اس مقصد کے لیے خاص طور پر چولستان جیسے انتہائی محروم علاقوں کے لیے مناسب مالیاتی وسائل مختص کیے جائیں۔ حالیہ سیلاب سے ہونے والی تباہی نے پائیدار ڈھانچے کی ضرورت کو خاص طور پر اجاگر کیا ہے۔

ایچ آر سی پی تمام متعلقہ فریقین پر زور دیتا ہے کہ وہ مل کر کام کریں اور لوگوں کے تحفظات دور کرنے کے لیے فوری اقدامات کریں۔ جنوبی پنجاب میں درماندہ برادریوں کو نظر انداز کرنے کا سلسلہ جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

حنا جیلانی
چیؤرپرسن

The report can be accessed here.