پریس ریلیز

سیاسی و انتخابی میدان میں پس ماندہ طبقوں کی خود مختاری یقینی بنائی جائے: ایچ آر سی پی کی کانفرنس کا مطالبہ

اسلام آباد، 19 ستمبر 2023۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) اور فریڈرک نومان فاؤنڈیشن (ایف این ایف) کے تعاون سے منعقد کردہ کانفرنس کے مقررین اور شرکاء نے مطالبہ کیا ہے کہ عورتوں، خواجہ سراؤں ، معذوریوں سے متاثرہ افراد اور مذہبی اقلیتوں سمیت تمام پس ماندہ طبقوں کی سیاسی و انتخابی عمل میں مؤثر شمولیت کے لیے جامع اصلاحات کی جائیں۔

اپنے افتتاحی خطاب میں، ایچ آر سی پی کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق نے کہا کہ سماج کے پسے ہوئے طبقوں کی خود مختاری کے لیے اُنہیں مرکزی سیاسی دھارے کا حصہ بنانا ناگزیر ہے۔ اُنہوں نے ووٹروں اور اُمیدواروں، دونوں کو ہموار فضا فراہم کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ ایف این ایف کے پاکستان چیپٹر کی سربراہ برگٹ لیم نے کانفرنس کا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ آزاد و شفاف انتخابات انتہائی ضروری ہیں تاکہ ان کے نتیجے میں منتخب ہونے والی حکومتوں کی قانونی حیثیت پر شکوک و شبہات پیدا نہ ہوں۔

پہلے سیشن میں، احمدیہ برادری کے نمائندے عامر محمود کا کہنا تھا کہ احمدیوں کے لیے الگ ووٹر فہرستیں عقیدے کی بنیاد پر امتیازی سلوک کے مترادف ہیں کیونکہ اِس سے بطورِ شہری اُن کا ووٹ کا حق متاثر ہوتا ہے۔ خواجہ سراؤں کے حقوق کی کارکن ڈاکٹر مہرب معیز اعوان نے کہا کہ انتخابی عمل میں پس ماندہ طبقوں کی شمولیت خدا تَرسی کے جذبے کی بجائے یک جہتی کے اصول پر مبنی ہونی چاہیے۔ بلوچستان اسمبلی کی سابق اسپیکر راحیلہ درانی نے مطالبہ کیا کہ عورتوں کی خود مختاری کے لیے مخصوص سیاسی تربیت گاہیں قائم کی جائيں تاکہ وہ بلند حوصلے کے ساتھ انتخابی مقابلوں اور سیاسی عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔

دوسرے سیشن کے دوران، ایچ آر سی پی کے سابق چئیرپرسن افراسیاب خٹک نے پسے ہوئے طبقوں کے حوالے سے آئینی اور قانونی ڈھانچوں میں پائے جانے والے دہرے معیار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ قوانین اور برابری کا اصول ایک دوسرے سے متصادم ہیں جس سے شہریوں کی مساوی حیثیت کا تصور کمزور ہو رہا ہے۔ معروف محقّق ڈاکٹر ناظر محمود نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کے من گھڑت بیانیے کو فروغ دینے میں نصابی کتب کے کردار کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ اِس سے شہریوں میں سیاست سے لاتعلقی کا رجحان پیدا ہوا ہے۔ امتیازی قوانین بھی منسوخ کیے جائیں، اور پس ماندہ طبقوں کو دی گئی آئینی ضمانتوں کی پاسداری کرتے ہوئے ہوئے اُنہیں پارلیمان میں مؤثر نمائندگی دی جائے۔

مقررین کی متفقہ رائے تھی کہ ووٹ کے حق کو قومی شناختی کارڈ سے جوڑ کر بارِ ذمہ داری ریاست سے شہریوں پر منتقل کیا گيا ہے جس کے نتیجے میں پس ماندہ طبقوں کا حق ِرائے دہی شدید متاثر ہوا ہے۔ پشاور ہائی کورٹ کے وکیل سنگين خان نے تحویز دی کہ حلقہ انتخاب کے کُل ڈالے گئے ووٹوں میں کم از کم 10 فیصد عورتوں کے ووٹ کی شرح میں بتدریج اضافہ کیا جائے اور سیاسی جماعتوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنے ووٹوں میں اضافے کے لیے اپنی صفوں میں عورتوں کی نمائندگی بڑھائيں۔ اسمبلیوں میں عورتوں کے لیے پانچ فیصد کوٹے کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے کڑی نگرانی اور مؤثر جوابدہی کا نظام تشکیل دینا بھی ضروری ہے۔

آخری سیشن کے دوران، مقررین نے پس ماندہ شہریوں پر اشرافیہ کی گرفت کے اثرات پر گفتگو کی۔ ماہرِ تعلیم عاصم بشیر نے کہا کہ آبادی سے متعلق مبالغہ آمیز اعدادوشمار کے ذریعے بلواسطہ طریقے سے من مانی حلقہ بندیاں کر کے ووٹروں کے مفادات کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ ایوا جی الائنس کی چئیر ثنا درانی اور سابق وزیرِ خزانہ عائشہ غوث نے بھی شہریوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے وسیع تر سیاسی اصلاحات اور نئے سماجی معاہدے کی سفارش پیش کی۔

اپنے اختتامی کلمات میں، ايچ آر سی پی کے کونسل رُکن فرحت اللہ بابر نے رائے دہند گان کو غیرسیاسی بنانے کے عمل پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سیاست کو بُرا بھلا کہنے سے تبدیلی لانے کا سیاسی عزم ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہمیں سیاسی طور پر فعال نوجوان کارکنوں کے ذریعے اصلاحات لانا ہوں گی۔

حنا جیلانی
چئیرپرسن