پریس ریلیز

شمولیت کا حق اتنخابی اصلاحات کی اساس قرار دیا جائے

اسلام آباد، 31 اگست 2022۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی)  نے فریڈرک نومان فاؤنڈیشن فار فریڈم (ایف این ایف) کے اشتراک سے ایک قومی کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں ایسی بامعنی انتخابی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا گیا جو کمزور اور پسماندہ طبقوں کے مفادات کی حفاظت کے ساتھ ساتھ  قابل اعتماد و شفاف انتخابات کو یقینی بنا سکیں۔ ایف این ایف پاکستان چیپٹر کی سربراہ برجٹ لیم نے کہا کہ شہریوں کو ان کے انتخابی حقوق اور ذمہ داریوں سے آگاہ کیا جانا ضروری ہے، جبکہ ایچ آر سی پی کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق کا کہنا تھا کہ ‘وفاقیت اور مساوی شہریت جمہوری عمل کے کلیدی حصّے ہیں۔’

پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے محسوس کیا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کردار کی وجہ سے انتخابات کی ساکھ ہمیشہ مشکوک رہی ہے، جنہیں ‘قانون کے دائرے میں لانا اور سیاسی مداخلت کے لیے جوابدہ ٹھہرانا ہو گا۔’ پی ٹی آئی کے سابق سیکریٹری جنرل ارشد داد نے کہا کہ ‘انتخابی سیاست میں پیسے اور برادری کے اثرو رسوخ سے بالاتر ہونا ضروری ہے۔’ ان کے اس تبصرہ کے جواب میں کہ جمہوری عمل کو زیادہ موثر بنانے کے لیے ووٹرز کو ‘تعلیم یافتہ’ ہونا چاہیے، این ڈی ایم کے چیئرمین محسن داوڑ نے کہا کہ ‘ناخواندہ ووٹرز اکثر پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھنے والوں سے زیادہ سیاسی بصیرت رکھتے ہیں۔’

پولنگ کے طریقہ کار اور ووٹروں کے حق رائے دہی پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے،  نادرا کے چیئرپرسن طارق ملک نے کہا کہ، اگرچہ نادرا نے 96 فیصد سے زیادہ رجسٹریشن کر لی ہے، مگر ان تمام ووٹرز کا اندراج ہونا بھی ضروری ہے جن کے نام ابھی تک درج نہيں ہو سکے۔  پیپلز پارٹی کے رہنما تاج حیدر نے تجویز دی کہ نتائج کی شفافیت بڑھانے کے لیے ریٹرننگ افسران کو چاہیے کہ وہ فارم 45 کی تصاویر ای سی پی کی ویب سائٹ پر آویزاں کریں۔

این سی ایس ڈبلیو کی سابق چیئرپرسن خاور ممتاز نے کہا کہ خواتین  ووٹروں کا ٹرن آؤٹ کم از کم 20 فیصد کیا جائے تاکہ جماعتیں خواتین کی رجسٹریشن بڑھانے پر مجبور ہوں۔ فافن کے رشید چوہدری نے کہا کہ پولنگ سٹیشن ووٹرز کی رہائش گاہ سے ایک کلومیٹر سے زیادہ کے فاصلے پر نہیں ہونے چاہییں۔ ایچ آر سی پی کی کونسل کے رکن حسین نقی نے کا کہنا تھا کہ درست مردم شماری کے بغیر منصفانہ الیکشن کا انعقاد ناممکن ہے۔

پسے ہوئے طبقوں کے لیے کوٹہ کے نظام کا جائزہ لیتے ہوئے، پی سی ایس ڈبلیو کی سابق چیئرپرسن فوزیہ وقار نے کہا کہ ‘ پسماندہ طبقوں کو مرکزی دھارے کی سیاست میں شامل کے لیے ٹھوس مثبت اقدامات کیے جائیں۔’ فاؤنڈیشن برائے امن و ترقی سے وابستہ رومانہ بشیر نے اس امر پر اتفاق کا اظہار کیا کہ جماعتوں کی کور کمیٹیوں میں مذہبی اقلیتوں کو مؤثر نمائندگی دی جائے۔ انفارمیشن کمشنر زاہد عبداللہ نے افراد باہم معذوری کی انتخابی شمولیت کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے ’نامیاتی تحریک‘ کی ضرورت پر زور دیا۔

‘جعلی خبروں’ کے تناظر میں انتخابی عمل پر بات کرتے ہوئے سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے اس بات پر زور دیا کہ رپورٹنگ کو تعصب سے پاک رہنا چاہیے، جبکہ پی ایف یو جے کے سابق صدر شہزادہ ذوالفقار نے کہا کہ بریکنگ نیوز کی دوڑ میں ایڈیٹر کا کردار بہت کم ہو گیا ہے۔  ڈیجیٹل حقوق کے کارکن اسامہ خلجی نے کہا کہ غلط معلومات کا مقابلہ کرنے کے لیے زیادہ ڈیجیٹل خواندگی، میڈیا ہاؤسز میں حقائق کی جانچ کے کلچر، اور سیاسی جماعتوں کے لیے سوشل میڈیا کے اصول و ضوابط کی اشد ضرورت ہے۔

ایچ آر سی پی کی چیئرپرسن حنا جیلانی نے کانفرنس کا اختتام ان الفاظ کے ساتھ کیا، ‘ سیاسی عمل کے ہر ایک مرحلے میں شمولیت کے حق کو انتخابی اصلاحات کی اساس قرار دیا جائے۔ تاہم، شمولیت بذات خود کوئی مقصد نہیں بلکہ خودمختاری کے حصول کا ذریعہ ہے۔

حنا جیلانی
چیئرپرسن