پریس ریلیز

مجوزہ آئینی ترمیم بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کا باعث نہیں بننی چاہیے

اسلام آباد، 10 اکتوبر 2024۔ مجوزہ آئینی ترامیم کے پیکج کے حوالے سے پیدا ہونے والے تنازعے کے پیش نظر، پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے ضروری سمجھا کہ سول سوسائٹی، قانونی برادری اور سیاسی جماعتوں کو ایک مشترکہ ایجنڈا پر متفق کرنے کے لئے ایک قومی مشاورت کا انعقاد کیا جائے۔ اجلاس کا تعارف سیکرٹری جنرل حارث خلیق نے کرایا جبکہ اس کی میزبانی ایچ آر سی پی کی شریک چیئر منیزے جہانگیر اور ڈائریکٹر فرح ضیاء نے کی۔

وکیل حنا جیلانی نے سول سوسائٹی کی جانب سے درج ذیل مطالبات پیش کیے: بل کے سرکاری مسودے کو عوام کے سامنے لایا جائے اور اس پر اتفاق رائے قائم کیا جائے؛ کوئی بھی ترمیم ایسی نہیں ہونی چاہئے جو ان اداروں کو مزید اختیارات دینے یا احتساب سے بچنے کی گنجائش فراہم کرے جن کا آئین کے آرٹیکل 7 میں کوئی ذکر نہیں ؛ سول سوسائٹی آئین میں ایسی تبدیلی قبول نہیں کرے گی جو آرٹیکل 8 کو متاثر کرے؛ اور کسی بھی آئینی ترمیم میں پارلیمان کے علاوہ دیگر سیاسی فریقوں کو بھی شامل کیا جائے۔

نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے رہنما افراسیاب خٹک نے اس عمل کو ‘شب خون’ قرار دیتے ہوئے بل کا مستند مسودہ فراہم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ عجلت میں کی جانے والی قانون سازی پارلیمانی اصولوں کی خلاف ورزی ہے، جبکہ وکیل دانش آفریدی نے اس ترمیم کے وقت پر سوال اٹھایا۔ پاکستان بار کونسل کے سابق نائب چیئر عابد ساقی نے بھی بل کے مسودے کی تیاری میں شفافیت کی ضرورت پر زور دیا۔

وکیل صلاح الدین احمد کا ماننا تھا کہ سپریم کورٹ اور ایک آئینی عدالت کے درمیان آئینی دائرہ کار کو تقسیم کرنے کا کوئی قابلِ عمل طریقہ نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ایسی کوئی بھی ترمیم جو حکومت کو آئینی عدالت کے ججوں کو منتخب کرنے کا اختیار دے وہ عدلیہ کی آزادی کو نقصان پہنچائے گی۔ عوام پاکستان کے رہنما اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی اس بات کی تائید کی۔انہوں نے کہا کہ یہ ترمیم عدلیہ کو کنٹرول کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔

وکلاء منیر کاکڑ اور منیر ملک نے مزید کہا کہ مجوزہ ترمیم 2007 کی وکلا تحریک میں حاصل کیے گئے اہداف کو ختم کر دے گی۔ وکیل ریما عمر نے کہا کہ آئینی عدالتوں کا قیام موجودہ سیاسی تناظر میں ایک غیر معمولی اقدام ہے۔ اگرچہ، پی پی پی کے رہنماؤں نیئر بخاری اور فرحت اللہ بابر نے آئینی عدالت کے خیال کی حمایت کی، مگر انہوں نے بھی قانون سازی میں زیادہ شفافیت کی ضرورت پر زور دیا۔

آئینی ماہر ظفراللہ خان، صحافی ناصر زیدی اور عصمت اللہ نیازی، اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے کنوینر عرفان مفتی نے کہا کہ آئینی ترامیم سیاسی مذاکرات، اتفاق رائے اور عوامی تائید پر مبنی ہونی چاہئیں۔ عوامی ورکرز پارٹی کے نمائندے عاصم سجاد اختر نے نشاندہی کی کہ یہ مشاورتی اجلاس بھی معاشرے میں موجود تقسیم کو ظاہر کرتا ہے۔

مسلم لیگ ن کے رہنما عقیل ملک نے شرکاء کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے قومی اسمبلی کے ضوابط میں دیے گئے قانون سازی کے عمل کی پیروی کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بل آرٹیکل 8 یا (4)199 کی خلاف ورزی کا باعث نہیں بنے گا۔

ایچ آر سی پی کی نائب چیئر نسرین اظہر نے شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔

اسد اقبال بٹ

چیئرپرسن