پریس ریلیز

موجودہ بحران میں سول سوسائٹی کا وجود ناگزیر ہے۔

لاہور، 2 ستمبر 2022۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب پاکستان سیاسی، اقتصادی اور موسمیاتی بحرانوں میں گھرا ہوا ہے، پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کی جانب سے منعقدہ ایک عوامی اجلاس سول سوسائٹی کے تحفظات اور مطالبات کا  مسودہ سامنے لایا ہے۔

 اس وقت سب سے بڑی تشویش حالیہ سیلاب کی وجہ سے ہونے والی تباہی ہے جو نہ صرف موسمیاتی بحران، بلکہ پاکستانی ریاست کی پائیدار، غریب نواز، اور عوام دوست ترقی کو یقینی بنانے میں ناکامی کا بھی نتیجہ ہے۔ مزید برآں، مسلسل سیاسی محاذ آرائی جمہوری اقدار کو کمزور کر رہی ہے جس کا خمیازہ عام شہریوں کو معاشی مشکلات کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے، جبکہ اشرافیہ کی کئی دہائیوں کی گرفت، سلامتی کے خبط اور ناقص معاشی منصوبہ بندی نے دہاڑی دار مزدوروں اور مقررہ آمدنی والے محنت کشوں کے لیے جینا دو بھر کر دیا ہے۔

سول سوسائٹی مطالبہ کرتی ہے کہ سیلاب سے متاثرہ تمام افراد کو ریسکیو اور ریلیف فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی اور معاش کی بحالی کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتیں مشترکہ طور پر ایک نیشنل ایکشن پلان بنائیں اور اس پر عمل درآمد کریں۔ اس سلسلے میں مقامی حکومتوں کا کردار کلیدی ہے: انہیں مضبوط کیا جانا چاہیے اور تکنیکی اور مالی وسائل اور خود مختاری دی جانی چاہیے جو امدادی کاموں، موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے والی تعمیرات اور آفات سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، ریاست کو سول سوسائٹی سے متعلق اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے: بین الاقوامی این جی اوز کی بے دخلی نے موجودہ بحران کو  اور زيادہ سنگین کر دیا ہے۔

پاکستان کا موسمیاتی بحران ایک سیاسی بحران بھی ہے۔ سول سوسائٹی سمجھتی ہے کہ اگر ریاست موسمیاتی ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے متحدہ محاذ بنانے کی توقع رکھتی ہے تو اسے تمام صوبوں کو منصفانہ توجہ دینی ہو گی اور تمام لسانی گروہوں کی جائز شکایات کا ازالہ کرنا ہو گا، خاص طور پر ان کی شکایات کا جو بلوچستان، سندھ، سابق فاٹا اور سرائیکی وسیب میں آباد ہیں ۔ یہ بھی اتنا ہی اہم ہے کہ خواتین کو تمام اداروں اور حکومتی سطحوں پر یکساں نمائندگی دی جائے۔ قومی انتخابات کا انعقاد آزادانہ و منصفانہ انداز میں ہونا چاہیے تاکہ ایسی نمائندہ حکومت کے قیام کو یقینی بنایا جا سکے جو سیاسی لحاظ سے محنت کش طبقوں اور پسماندہ گروہوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے پر عزم ہو۔

سینئر صحافی امتیاز عالم نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سول سوسائٹی کو تمام بنیادی حقوق کے تحفظ پر مشتمل چارٹر آف ڈیمانڈز تیار کرنا ہو گا۔ انسانی حقوق کی دفاع کار تنویر جہاں نے کہا کہ آفات  سے نمٹنے کی تیاری کی حکمت عملیوں میں موبائل میڈیکل یونٹس اور ایسے خاندانوں کا سراغ لگانے کے نظام شامل ہونے چاہئیں جو آفات سے تقسیم ہو گئے تھے۔

ماہر سیاسی معیشت ڈاکٹر فہد علی نے کہا کہ آئی ایم ایف کے معاہدے پر دوبارہ بات چیت ہونی چاہیے کیونکہ پاکستان کو اب بحالی نو اور تعمیر نو کے لیے مالیاتی استحکام کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دفاعی اخراجات جو کہ ‘کمرے میں پڑے ہاتھی’ کے مترادف ہیں، پر کھل کر بحث ہونی چاہیے۔ سینئر ایڈووکیٹ عابد ساقی نے کہا کہ حالیہ بحرانوں کو حل کرنے کے لیے ایسی بامعنی سیاسی تحریک کی ضرورت ہے جس میں مزدور، خواتین اور طلبہ شامل ہوں

ایچ آر سی پی کی چیئرپرسن حنا جیلانی نے کہا کہ سول سوسائٹی کے لیے  مقبول ہوتے سیاسی بیانیے کے خلاف متحد ہو کر کام کرنا بہت اہم ہے جو اصول پر مبنی نظم پر یقین نہیں رکھتا اور جذباتی لفاظی اور عوامیت پسندی کو اہمیت دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایچ آر سی پی سول سوسائٹی کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے لیے اپنی اجتماع سازی کی طاقت کا استعمال کرے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سول سوسائٹی کو ‘نہ صرف یہ باور کرانا ہے کہ وہ ایک اہم طاقت ہے بلکہ اس کے لیے موجودہ بحران میں اپنے وجود کو ناگزیر ثابت کرنا بھی ضروری ہے’۔

حنا جیلانی
چیئرپرسن