پریس ریلیز

موسمیاتی انصاف پر قومی گول میز کانفرنس نے نئے سماجی معاہدے کا مطالبہ کیا ہے: ایچ آر سی پی

اسلام آباد، 7 دسمبر 2022۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے موسمیاتی انصاف پر ایک قومی گول میز کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں کہا گیا کہ سیلاب 2022 کے تباہ کن اثرات کے تناظر  میں ایک ایسے نئے سماجی معاہدے کی ضرورت ہے جس کی بنیاد موسمیاتی انصاف پر ہو۔ جس سے مراد یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی محض ماحولیاتی معاملہ ہی نہیں بلکہ ایک اخلاقی، قانونی اور سیاسی معاملہ ہے۔

گول میز کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے، ایچ آر سی پی کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق نے حالیہ سیلاب کا حوالہ دیتے ہوئے موسمیاتی تبدیلی سے لوگوں کی زندگیوں اور ذرائع معاش پر پڑنے والے منفی اثرات کا ذکر کیا۔ انہوں نے ماحولیاتی حقوق کو انسانی حقوق کی فہرست کا لازمی جُز بنانے کی ضرورت اُجاگر کی اور کہا کہ موسمیاتی انصاف  کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے قلیل مدتی اور طویل مدتی، دونوں طرح کے حل تلاش کرنا ہوں گے۔

کانفرنس کے شرکاء کا کہنا تھا کہ حقِ زندگی، ذریعہ معاش، مکان، صفائی، صحت، خوراک، پانی اور صاف ہوا جیسے بنیادی حقوق سے حقیقی معنوں میں مستفید ہونے کے لیے ماحولیاتی حقوق کا تحفظ ناگزیر ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے سابق سربراہ، اور ایشین ڈیزاسٹر پری پیئرڈنیس سنٹر کے قومی مشیر جنرل (ریٹائرڈ) ندیم احمد نے زور دے کر کہا کہ ہنگامی ردِعمل کے دوران خوراک، رہائش، صفائی کے لیے پانی اور صحت کی نگہداشت کو ترجیح دینی چاہیے۔ موسمیاتی تبدیلی پر سینٹ کی قائمہ کمیٹی کی چیئرپرسن سیمی ایزدی کا کہنا تھا کہ نچلی سطح پر تبدیلی لانے کے لیے مقامی حکومت کا ہونا ضروری ہے۔ اِنڈس ارتھ ٹرسٹ کے سی ای او شاہد سعید نے متاثرہ افراد کے نفسیاتی صدمے کو کم کرنے کے لیے قلیل مدتی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔ ماہرِ تعلیم بریگیڈیر (ریٹائرڈ) ڈاکٹر اعجاز حسین شاہ نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہر سطح پر حکمتِ عملیاں وضع کرنے کی ضرورت ہے، اور اِس مقصد کے لیے این ڈی ایم اے، وزارتِ موسمیاتی تبدیلی اور وزارتِ منصوبہ بندی کے مابین قریبی رابطہ انتہائی ضروری ہے۔

ماحولیاتی امور پر نگاہ رکھنے والی صحافی عافیہ سلام نے 2022  کے حالیہ سیلاب کے وقت ریاست کی عدم تیاری کی حقیقت بے نقاب کی اور مطالبہ کیا کہ ریاست کو نہ صرف قدرتی آفت سے نمٹنے کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے بلکہ آفت کے امکانات میں کمی لانے کے لیے بھی سرگرم ہونا ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ریاست انسانی حقوق کے نقطہ نظر سے خطرات اور خامیوں کا جائزہ لے اور آفت سے نمٹنے کی کوششوں کے دوران صنفی تفریق پر قابو پانے اور نوجوانوں کو بہتر ذرائع میسر کرنے پر توجہ دے۔ ماہرِ تعلیم ضیغم عباس نے نشاندہی کی کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا کامیابی کے ساتھ سامنا کرنے کے لیے سماج کی نچلی سطحوں پر روایتی علوم کا نظام موجود ہے جسے بروئے کار لانے کی ضرورت ہے، جبکہ جناح انسٹی ٹیوٹ سے تعلق رکھنے والے سیف جمالی نے آفات پر ردِعمل کے لیے معاشرتی دانش سے مستفید ہونے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ سماج میں صدیوں سے پروان چڑھنے والے علم و حکمت کو نمایاں حیثیت حاصل رہے۔

کانفرنس کی بحث کو سمیٹتے ہوئے وزارتِ موسمیاتی تبدیلی کی وفاقی وزیر شیری رحمان نے یہ حقیقت سامنے لائی کہ ہر بحران سب سے زيادہ پسے ہوئے طبقوں کو متاثر کرتا ہے، جیسے کہ حالیہ سیلابوں نے عورتوں کو بچوں کو متاثر کیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سائنس مہارتوں کو ترجیح دینی ہو گی، ایسی پالیسیاں اپنانا ہوں گی جو معروضی حقائق سے جُڑی ہوئی ہوں، اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے کے لیے ملکی سطح کا منصوبہ وضع کرنا ہو گا۔

حنا جیلانی
چیئرپرسن