پریس ریلیز
وفاق کو جی بی کی سیاسی، آئینی، سیاسی اور معاشی محرومیوں کا خاتمہ کرنا ہو گا
ایچ آر سی پی کا فیکٹ فائنڈنگ مشن اپنے اختتام کو پہنچا
گلگت، 8 جون 2022۔ گلگت بلتستان(جی بی) کے لیے پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کا اعلیٰ سطحی فیکٹ فائنڈنگ مشن اپنے اختتام کو پہنچا۔ مشن میں کونسل کے اراکین سلیمہ ہاشمی اور مظفر حسین، سینئر صحافی غازی صلاح الدین، اور ایچ آر سی پی کے ریجنل کوآرڈینیٹر اسرار الدین شامل تھے۔
جی بی کے اپنے پانچ روزہ دورے کے دوران، مشن کو معلوم ہوا کہ خطے میں انسانی حقوق کی صورتحال ابتر ہے، سیاسی کارکنوں، انسانی حقوق کے دفاع کاروں، قانونی برادری اور مذہبی قیادت نے وفاق کی جانب سے جی بی کو ملک کا حصّہ بنانے میں وفاق کی ناکامی پر مایوسی کا اظہار کیا۔ مشن نے جن حلقوں سے گفتگو کی ان کا خیال تھا کہ جی بی کو کم از کم عارضی صوبے کا درجہ ضرور دیا جائے یا آخری چارے کے طور پر آزاد جموں و کشمیر جیسا نظامِ حکومت دیا جائے۔
مشن سے ملنے والی سیاسی قیادت نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ کو اِس خطے میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ وفاق میں شروع ہونے والے انتخابی اصلاحات کے عمل میں جی بی کو بھی شامل کیا جائے۔ اس کے علاوہ، یہ حقیقت کہ اعلیٰ عدلیہ میں تقرریاں وزیر اعظم کی طرف سے کی جاتی ہیں، گلگت بلتستان کی عدلیہ کی آزادی، وقار اور غیر جانبداری پر سوالیہ نشان ہے، اور اِس سے ادارے پر عوام کا اعتماد باقی نہیں رہتا۔
یہ انتہائی تشویشناک بات ہے کہ جی بی میں آزادیِ اظہار اور پرامن اجتماع کو بدستور خطرہ لاحق ہے: انسانی حقوق کے دفاع کاروں، سیاسی کارکنان اور طلباء پر انسداد دہشت گردی اور سائبر کرائم قوانین، خاص طور پر چوتھے شیڈول کے تحت مقدمات کے اندراج کا سلسلہ جاری ہے۔
موصول شدہ شواہد کی بنیاد پر، مشن کا خیال ہے کہ اسٹیٹ سبجیکٹ رُول (State Subject Rule) کے خاتمے نے ملک کے دیگر علاقوں کی نجی کارپوریشنوں اور غیرمقامی باشندوں کے ہاتھوں مقامی قدرتی وسائل کے استحصال کی راہ ہموار کی ہے۔ اس کی وجہ سے خطے کی آبادی میں ردّوبدل ہو رہا ہے جس سے مقامی باشندوں کی پریشانی میں اضافہ ہوا ہے، جو یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ جی بی کو ترقیاتی منصوبوں سے باہر رکھا جا رہا ہے، بنیادی طور پر ان منصوبوں سے جو چین- پاکستان اقتصادی راہدای (سی پیک) کے تحت شروع کیے جا رہے ہیں۔
مشن خاص طور پر جی بی کے مختلف حصوں بالخصوص ضلع غذر میں خودکشی کے واقعات میں شدید اضافے سے پریشان ہے۔ اِن متاثرین کی بڑی تعداد خواتین پر مشتمل ہے، اور مشن کے پاس یہ ماننے کے لیے شواہد موجود ہیں کہ غیرت کے نام پر قتل کے کچھ واقعات کو خودکشی کا رنگ دے کر دبا دیا گیا۔
مشن کو یہ جان کر سخت تشویش ہوئی کہ 2010 کی عطا آباد جھیل کے حادثے کے متاثرین کو ابھی تک معاوضہ نہیں ملا اور نہ ہی ان کی بحالیِ نو کی گئی۔ شیشپر گلیشیئر کے پگھلنے سے آنے والے سیلاب نے بھی ایک درجن سے زائد خاندانوں کو بےگھر کیا اور اس حوالے سے ایک تشویشناک الزام یہ سامنے آیا ہے کہ ایک سرکاری ادارے نے اپنی آرام گاہ کو بچانے کے لیے پانی کے بہاؤ کا رخ گاؤں کی طرف موڑ دیا۔
کارگل جنگ سے متاثر ہونے والے لوگوں سے ملاقات کے دوران، مشن کو معلوم ہوا کہ انہیں ابھی تک ان کے گھروں اور ذرائع معاش کے نقصانات کا معاوضہ نہیں دیا گیا۔ متاثرین نے الزام لگایا کہ سویلین اور فوجی حکام متاثرین کی شکایات کے ازالے کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ متاثرین نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ سیکیورٹی فورسز نے ان کے علاقے میں بارودی سرنگیں بچھا دی تھیں، جس کی وجہ سے وہ اپنے آبائی گھروں میں واپس نہیں جاسکتے۔
مشن کے نتائج اور سفارشات پر مشتمل ایک تفصیلی رپورٹ جلد از جلد جاری کی جائے گی۔
حنا جیلانی
چیئرپرسن