پریس ریلیز

پاکستان کو جبری گمشدگیوں کے خاتمے کے لیے عزم کا مظاہرہ کرنا ہو گا

اگست30  2022، لاہور۔ جبری گمشدگیوں کے متاثرین کے عالمی دن کے موقع پر، پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ سینٹ میں  فوجداری قانون (ترمیمی) بل 2022 پر غورو فکر کے دوران سول سوسائٹی کے تمام متعلقہ حلقے خصوصاً بلوچستان، سندھ، جنوبی پنجاب اور خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والوں سے مشاورت کی جائے۔ ایسے تمام ابہام دور کیے جائیں جو متاثرین کے خاندانوں کو جبری گمشدگی کے واقعات رپورٹ کرنے سے خوفزدہ کرتے ہیں، جن میں یہ شق بھی شامل ہے کہ ‘من گھڑت’ درخواستیں دائر کرنے جانے والے افراد کو پانچ سال تک قید کی سزا ہو گی۔

مزید برآں، ایسی ریاستی ایجنسیوں کی سویلین نگرانی کا مستحکم بندوبست متعارف کیا جائے جو جبری گمشدگی کے معاملات میں باقاعدگی سے ملوث ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ جون 2022 میں پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ جب ٹھوس شواہد سے نظر آرہا ہو کہ جبری گمشدکی کا واقعہ پیش آیا ہے تو ریاست لاپتہ افراد کا سراغ لگانے کی پابند ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ لاپتہ افراد کی حفاظت اور ان کا سراغ لگانے کے ذمہ دار ریاستی عہدیدار اس فرض کی ادائیگی میں ناکام ثابت ہوں تو ان کا محاسبہ ہونا چاہیے۔

اس سے یہ بھی واضح ہو جانا چاہیے کہ صورت حال کتنی سنگین ہے اور پاکستان نے ایک ایسے مسئلے کے حل کے لیے تکلیف دہ حد تک سست پیش رفت کا مظاہرہ کیا ہے جسے بین الاقوامی سطح پر انسانیت کے خلاف جرم سمجھا جاتا ہے۔ لہذا، پاکستان کو جبری گمشدگیوں سے تمام افراد کے تحفظ کے کنونشن کی توثیق کرتے ہوئے یہ ثابت کرنا چاہیے کہ وہ جبری گمشدگیوں کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے۔

ابھی حال ہی میں، کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک پبلشر اور مصنف فہیم بلوچ کو وردی پوش پولیس کے ہمراہ ‘نامعلوم’ افراد نے مبینہ طور پر حراست میں لیا ہے۔ ان کے اہل خانہ کا دعویٰ ہے کہ ان کا ٹھکانہ ابھی تک نامعلوم ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں فوری طور پر رہا کیا جائے اور ان کے باضابطہ قانونی کارروائی کے حق کا تحفظ کیا جائے۔

حنا جیلانی
چیئرپرسن