پریس ریلیز 

۔2023کے دوران خیبر پختونخوا میں عوامی بے چینی اور قتل و غارت باعث تشویش ہے
ایچ آر سی پی سالانہ رپورٹ کا اجراء

پشاور، 11 جون۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کی 2023 میں انسانی حقوق کی حال سے متعلق سالانہ رپورٹ خیبرپختونخوا میں پریشان کن واقعات کی نشاندہی کرتی ہے، جس کا آغاز صوبائی اسمبلی کی قبل از وقت تحلیل سے ہوا۔ اس کے بعد، صوبائی انتخابات نہ ہونے کے باعث شہری سال بھر نمائندگی سے محروم رہے اور ایک بھی قانون منظور نہیں ہوا۔ تاہم، صوبائی انتخابات کے انعقاد تک بلدیاتی اداروں کو معطل کرنے کے حکم کو خوش قسمتی سے پشاور ہائی کورٹ نے مسترد کر دیا، جس سے منتخب بلدیاتی نمائندوں کو اپنے ووٹرز کو خدمات کی فراہمی جاری رکھنے کا موقع ملا۔ اس کے بعد اگست میں 21 اضلاع میں 72 اہم عہدوں کے لیے بلدیاتی انتخابات کرائے گئے۔

صوبے میں امن و امان کی صورتحال ابتر ہوگئی اور 160 سے زائد پولیس اہلکار، 70 سے زائد فوجی اہلکار، 60 سے زائد عام شہری اور 170 سے زائد مبینہ عسکریت پسند عسکریت پسندوں کے درجنوں ٹارگٹڈ حملوں اور سکیورٹی آپریشنز میں مارے گئے۔ تاہم، ان سیکورٹی خطرات سے نمٹنے کی ایک گمراہ کن کوشش کی گئی جب وفاقی نگراں حکومت کے ایک اعلان کے بعد تقریباً 212,000 افغان مہاجرین اور تارکین وطن کو صوبے سے زبردستی ملک بدر کر دیا گیا۔

سال بھر کے دوران صوبے میں بڑے پیمانے پر عدم اطمینان بھی واضح رہا اورسینکڑوں اساتذہ، ڈاکٹروں، ہیلتھ ورکرز اور سینیٹری ورکرز نے صوبے بھر میں الگ الگ مظاہروں میں تنخواہوں اور دیگر واجبات کی ادائیگی میں تاخیر کے خلاف احتجاج کیا۔ سرحد کی بندش نے ہزاروں لوگوں کی نقل و حرکت کی آزادی کو محدود کر دیا، اور 9 مئی کے احتجاج کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے سینکڑوں رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کے ساتھ ساتھ انجمن سازی کی آزادی پر پابندیاں بھی بڑھ گئیں۔

صحت عامہ اور ماحولیاتی بحرانوں نے شہریوں کو کافی نقصان پہنچایا، نیز کم از کم 11 فیصد آبادی منشیات کے استعمال کا شکار ہوئی۔کئی اضلاع میں بارشوں، سیلاب اور آندھی اور طوفان کے باعث تقریباً 40 اموات واقع ہوئیں۔ عدالتی احکامات کے باوجود معذوری کا شکار افراد بھی زیادہ تر عمارتوں تک رسائی سے محروم رہے۔ مزید برآں، 47 لاکھ بچے، جن میں 66 فیصد لڑکیاں شامل تھیں، اسکول سے باہر رہے۔

ایک خوش آئند پیش رفت یہ تھی کہ جسٹس مسرت ہلالی مئی میں پشاور ہائی کورٹ کی پہلی خاتون چیف جسٹس بنیں، اور پھر جولائی میں انہیں دوسری خاتون جج کے طور پر سپریم کورٹ میں تعینات کیا گیا۔ صوبے کے پہلے ذہنی صحت سے متعلق مخصوص ادارے، انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ سائنسز کا پشاور میں بھی افتتاح کیا گیا، اور خواتین کو گھریلو تشدد سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے صوبائی کابینہ نے بالآخر قواعد و ضوابط کی منظوری دے دی۔ تاہم، صوبائی حکومت اور مقننہ کو شہریوں کے خدشات دور کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ ان کے جمہوری اور بنیادی حقوق کو یقینی بنایا جاسکے۔

اسد اقبال بٹ
چیئرپرسن

رپورٹ اس لنک پر دستیاب ہے۔