پریس ریلیز
بچوں کی زندگی ضائع کرنے والا کوہاٹ کشتی حادثہ غفلت کی وجہ سے پیش آیا تھا
لاہور، 25 فروری 2023: پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کی سربراہی میں ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن نے کوہاٹ میں المناک کشتی حادثے کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے جس میں مدرسے کے 53 بچے اور ایک استاد ڈوب کر ہلاک ہوئے تھے۔ مشن کو معلوم ہوا ہے کہ حادثہ سنگین غفلت، اداروں کے مابین ناقص رابطہ سازی، کشتی رانی کے قواعد کے غیرمؤثر اطلاق اور دیکھ بھال کے ناکافی قواعد و ضوابط کی وجہ سے اتنی زيادہ جانیں ضائع ہوئی ہیں۔
بچے ایک مقامی مدرسے کے طالب علم تھے اور انہیں ایک چھوٹی کشتی میں ٹانڈہ ڈیم پر لے جایا گیا تھا، جو حد سے زیادہ بوجھ کی وجہ سے ڈوب گئی۔ ان کی زندگی اور حفاظت کے حق کی یہ خلاف ورزی شدید تشویش کا باعث ہے، خاص طور پر مدرسے کے سربراہ کے غیرمعقول ردِعمل کے پیش نظر جو اپنے نو عمر طالبعلموں کی دیکھ بھال کے ذمہ دار تھے۔
اگرچہ آج جاری ہونے والی مشن کی رپورٹ کسی خاص قصور وار کا تعین نہیں کر سکی، لیکن اس میں یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی شواہد ہیں کہ مدرسے کے سربراہ، محکمہ آبپاشی اور سول انتظامیہ سبھی اس حادثے کے ذمہ دار ہیں۔ درج کی گئی ایف آئی آر اس کی عکاسی کرنے میں ناکام رہی۔ کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی اور تفتیشی عمل میں بھی بہت سے نقائص ہیں۔
اگرچہ ٹانڈہ ڈیم میں کشتی رانی پر 2022 سے پابندی عائد ہے، لیکن پابندی کے غیرمؤثر نفاذ کی وجہ سے سیاح کشتیاں پانی میں لے جانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان میں بہت سی کشتیاں ایسی ہیں جو اس مقصد کے لیے موزوں نہیں۔ ہلاکتوں کی بڑی تعداد کے پیشِ نظر، ایچ آر سی پی نے ایک اعلیٰ سطحی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا مطالبہ کیا ہے جو حتمی طور پر ذمہ داران کا تعین کرے اور انہیں غفلت کی سنگینی کے تناسب سے سزا کا مستحق قرار دے۔
مشن نے کہا ہے کہ ڈیم کی نگرانی کرنے والے تمام اداروں کے درمیان بہتر رابطہ سازی کی ضرورت ہے اور ، ہر معاملے میں ذمہ داریوں کا واضح تعین ہونا چاہیے۔ ریسکیو کی کوششوں میں تاخیر نے ہنگامی خدمات میں بہتری لانے کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ بروقت ہنگامی مدد کی فراہمی یقینی ہو سکے۔ کشتی رانی پر پابندی کے اطلاق کو یقینی بنانے کے لیے مناسب کارروائی کی جائے اور لوگوں کو اس پابندی کی خلاف ورزی کے نتائج سے آگاہ کیا جائے۔
حنا جیلانی
چیئرپرسن
رپورٹ اِس لنک پر دستیاب ہے۔