پریس ریلیز

معاشی استحکام، سیاسی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے: ایچ آر سی پی

لاہور، 18 جون 2022: اپنے ششماہی اجلاس کے اختتام پر، پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کی انتظامی کونسل نے ملک میں جاری سیاسی انتشار پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ رجحان جمہوریت، پارلیمان کی بالادستی اور دستور پسندی کے لیے مہلک ہے۔ بالکل اسی طرح، کمیشن نے اُبھرتے ہوئے معاشی عدم استحکام، آسمان کو چھوتی مہنگائی اور خوراک کے عدم تحفظ جو کہ مزدور اور متوسط طبقے پر شدید اثرانداز ہو رہا ہے، پر بھی فکرمندی کا اظہار کیا ہے۔ ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب سیاسی بے یقینی کا شکار ہے۔ ایچ آر سی پی نے ملک کو درپیش اہم مسائل پر غیرجانبدارانہ اتفاق رائے کا مطالبہ کیا ہے۔

کونسل نے آبادی کو درپیش انسانی حقوق کے متعدد سنگین مسائل اجاگر کیے جن میں گلگت بلتستان میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات جن کا مشاہدہ حال ہی میں گلیشئر کے پگھلنے سے آنے والے سیلاب سے ہوا، پنجاب میں شدید گرمی کی حالیہ لہر، سندھ اور بلوچستان میں پانی کی شدید قلت، جس کے نتیجے میں صوبائی تنازعات جنم لے رہے ہیں، نقل مکانی اور ذرائع معاش کا نقصان شامل ہیں۔

کونسل کے مشاہدے میں آیا ہے کہ پاکستان بھر میں پرامن مظاہرین کے خلاف پولیس کی بربریت کے واقعات شدت اختیار کرتے جار ہے ہیں اور ریاست مخالف الزامات پر کارکنوں اور سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں معمول کی کارروائی بن گئی ہیں۔ آزادیِ صحافت مسلسل دباؤ میں ہے اور صحافیوں کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ریاست کو بلا جواز تشدد سے رجوع کرنے کے بجائے اظہارِ رائے کی آزادی، انجمن اور پرامن اجتماع کے حقوق کا احترام کرنا چاہیے-

ایچ آر سی پی حکومت کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کروانا چاہتا ہے کہ جبری گمشدگیوں کے واقعات میں کوئی کمی نہیں آئی، خاص کر بلوچستان، سندھ اور کے پی میں جو بات زیادہ تشویش کا باعث ہے وہ یہ ہے کہ بلوچ اور پشتون طلبا کی جبری گمشدگی کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔ ایچ آر سی پی اپنے اس مطالبے کا اعادہ کرتا ہے کہ جبری گمشدگیوں کو جرم قرار دیا جائے اور ریاست تمام افراد کو جبری گمشدگیوں سے تحفظ  فراہم کرنےکے کنونشن کی توثیق کرے۔

خواتین اور خواجہ سرا افراد کے خلاف تشدد میں کمی کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیے۔ مذہبی اور فرقہ ورانہ اقلیتیں اب بھی غیرمحفوظ ہیں اور سیالکوٹ اور میاں چنوں میں ہجوم کے ہاتھوں ہلاکتوں، پشاور میں شیعہ عبادت گزاروں پر حملہ اور احمدیوں کی قبروں کی بے حرمتی جیسے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایچ آرسی پی ریاست سے مطالبہ کرتا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی لہر پر قابو پایا جائے اور سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ تصدق جیلانی کے 2014 کے فیصلے کی روشنی میں اقلیتوں کے قومی کمیشن کو آئینی درجہ دے تاکہ یہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرسکے۔

ایچ آر سی پی سندھ سٹوڈنٹس یونینز بل کی منظوری ، اور پی ڈی ایم ایز کے قیام کی منسوخی اور پیکا پر نظرثانی کے فیصلوں کا خیرمقدم کرتا ہے۔ تاہم، تحریکِ عدم اعتماد کی منظوری کے بعد سے مختلف پارلیمانی کمیٹیوں کی نشستیں اب بھی خالی ہیں جبکہ این سی ایچ آر اور این سی ایس ڈبلیو وسائل کی کمی کا شکار ہیں اور اسی وجہ سے مکمل طور پر فعال نہیں ہیں۔ ایچ آر سی پی اسلامی نظریاتی کونسل کے ان بیانات پر بھی سوال اٹھاتا ہے جس میں اس نے کم عمری کی شادیوں پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے بیانات پر تنقید کی تھی۔

گلگت۔ بلتستان کو صوبہ بنانے کا وعدہ پورا کیا جائے۔ کونسل نے پارلیمان کو اعتماد میں لیے بغیر افغانستان میں جنگجو گروہوں کے ساتھ ’خفیہ مذاکرات‘ پر تنقید کی۔ ایچ آر سی پی یہ بھی مطالبہ کرتا ہے کہ ریاست 1951کے مہاجر کنونشن اور اس کے 1967کے پروٹوکول کی منظوری دے اور مہاجرین کے حقوق کے لیے قانون سازی کرے۔

اسد اقبال بٹ

شریک چیئرپرسن