پریس ریلیز 

ریاست سیلاب متاثرین کی آبادکاری کے لیے فوری اقدامات کرے

لاہور، 30 اکتوبر 2022۔ اپنے چھتیسیویں سالانہ عمومی اجلاس (اے جی ایم) کے اختتام پر، پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی جنرل باڈی نے وفاقی و صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ حالیہ سیلاب میں اپنے گھروں اور ذرائع روزگار سے محروم ہونے والے لاکھوں افراد کی آبادکاری کے لیے اپنی کوششوں میں تیزی لائیں۔ بلاشبہ، تباہی کا پیمانہ غیرمعمولی ہے، لیکن اب ضرورت اس بات کی ہے کہ بےگھر ہونے والوں کے لیے اِس قسم کے گھروں کی تعمیرات پر فوری توجہ دی جائے جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا مقابلہ کر سکیں۔

ایچ آر سی پی نے زرعی اصلاحات کے مطالبے کا اعادہ کیا ہےکیونکہ یہ اصلاحات نہ صرف غربت میں کمی لانے اور خوراک و مکان تک مساوی رسائی جیسے حقوق کے حصول کے لیے ضروری ہیں، بلکہ سیلاب سے متاثر لوگوں کی دوبارہ آبادکاری کے لیے بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان کو موسمیاتی ہرجانے طلب کرنے کا پورا حق حاصل ہے، مگر اسے اپنی داخلی پالیسیوں پر بھی نظر دوڑانی ہو گی اور ایک ایسی حکمتِ عملی وضع کرنا ہو گی جس سے ملک کے انتہائی غیرمحفوظ طبقے موسمیاتی انصاف پا سکیں اور معاشی بحران کے دوران تمام لوگوں کے حقِ خوراک، مکان اور صحت کی حفاظت یقینی ہو سکے۔

ایچ آر سی پی نے ملک میں جاری سیاسی کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا اور سرکار و حزبِ اختلاف، دونوں کو باور کرایا ہے کہ یہ طرزِ عمل نہ صرف پاکستان کی جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ لوگوں کے بنیادی حقوق اور آزادیوں پر بھی اثرانداز ہو رہا ہے۔

جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت ہلاکتوں میں ملوث مجرموں کا محاسبہ نہ ہونا تشویش کا باعث ہے۔ ایچ آر سی پی نے یاد دہانی کرواتے ہوئے کہا کہ اِس کے اپنے ایک رکن، لالہ فہیم بلوچ کو  کراچی سے لاپتہ ہوئے دو ماہ بیت چکے ہیں، اور اُن کی بحفاظت بازيابی کا مطالبہ کیا۔

ایچ آر سی پی کو بلوائی تشدد میں اضافے پر تشویش ہے۔ حال ہی میں مشتعل ہجوم نے کراچی میں دو فراد کو مار مار کر ہلاک  کر دیا محض اِس بے بنیاد شبہ پر کہ وہ اغواء کار تھے۔ اگرچہ یہ وقوعہ سماج میں بڑھتی ہوئی بربریت کی نشاندہی کرتا ہے، مگر اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انصاف کی فراہمی کے حوالے سے لوگوں کا ریاست پر اعتماد ختم ہو چکا ہے۔ ریاست کو سوات کے باشندوں کے مطالبات پر بھی کان دھرنا ہوں گے، جو طویل عرصہ سے شدت پسندی میں اضافے سے خبردار کر رہے ہیں، اور اُنہیں انتہاپسندی سے پھوٹنے والے تشدد کے رحم کرم پر بےیارو مددگار نہيں چھوڑا جا سکتا۔

احمدیہ برادری پر دانستہ اور بتدریج بہیمانہ ظلم و ستم ، جس کی حالیہ مثال نکاح نامے میں عقیدے کا لازمی اظہار ہے، باعثِ تشویش ہے۔ ایچ آر سی پی کا ریاست سے یہ مطالبہ بھی ہے کہ سندھ میں شیڈول ذاتوں کو حکومت میں مناسب نمائندگی دی جائے اور اُنہیں ہر قسم کے امتیازی سلوک سے تحفظ فراہم کیا جائے۔ خواجہ سراء افراد (حقوق کا تحفظ) ایکٹ 2018 کے خلاف مذموم مہم ختم ہونی چاہیے اور صوبائی حکومتوں کو بھی خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانون سازی کرنا ہو گی۔

افغان مہاجرین کے حوالے سے ریاست ایسی حکمت عملی اختیار کرے جو پاکستان میں اُن کے پناہ لینے اور ملک میں بطورِ مہاجرین باعزت زندگی بسر  کرنے کا حق تسلیم کرے، جبکہ اِس کے ساتھ ساتھ میـزبان برادریوں کے سیاسی و معاشی حقوق کی حفاظت بھی کرے۔ اس کے علاوہ، ایچ آر سی پی کا مطالبہ ہے کہ معذوریوں سے متاثرہ افراد کو تمام سرکاری اداروں تک رسائی دی جائے۔ ایچ آر سی پی یہ بھی ضروری سمجھتا ہے کہ تمام عدالتی تقرریاں لسانیت، عقیدے یا صنف کے امیتاز سے بالا تر ہو کر میرٹ کی بنیاد پر کی جائیں۔

جمہوری نظام کے استحکام کے لیے تمام افراد کے اظہار، اجتماع اور انجمن سازی کے حق کو تحفظ دینا ناگزير ہے۔ ایچ آر سی پی عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے دوران تقریر پر منظور پشتین کے خلاف مقدمے کے اندراج کی ایک مرتبہ پھر مذمت کرتا ہے۔ کمیشن کا حکومت سے مطالبہ بہے کہ وہ تمام شہریوں کے پرامن احتجاج کے حق کی حفاظت یقینی بنائے۔ اس کے علاوہ، ایچ آر سی پی کے لیے یہ تشویش ہے کہ ریاست قواعد و ضوابط  کی آر میں این جی اوز اور سول سوسائٹی تنظیموں کی سرگرمیوں میں غیرضروری مداخلتوں کا مظاہرہ کر رہی ہے، اور یہ حقیقت ملحوظِ خاطر رہے کہ اِن میں سے بیشتر تنظیمیں ایسے شعبوں میں خدمات انجام دے رہی ہیں جنہيں ریاست نے نظرانداز کر رکھا ہے۔

حنا جیلانی
چیئرپرسن