پریس ریلیز

ایچ آر سی پی مورو احتجاج کے واقعے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کرتا ہے

لاہور، 6 جون 2025۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے سندھ کے ضلع نوشہرو فیروز کے علاقے مورو میں 20 مئی کو ہونے والے احتجاج کے دوران پیش آنے والے واقعات کی فوری اور آزادانہ عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ان واقعات میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں دونوں جانب متعدد افراد کے زخمی ہونے اور مظاہرین کی ہلاکتوں کی بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں، جبکہ کئی گاڑیوں کو بھی لوٹ کر نذرِ آتش کر دیا گیا۔

ایچ آر سی پی کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے مورو کا دورہ کیا تاکہ دریائے سنھ میں سے نہریں نکالنے اور زرعی زمین کو کارپوریٹ فارمنگ کے لیے مختص کرنے کے خلاف قومی شاہراہ پر شروع ہونے والے مظاہروں کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کی چھان بین کی جاسکے۔ مقامی افراد، بشمول ہاری مزدور اتحاد کے ارکان، کی گواہیوں کے مطابق احتجاج پرامن تھا، جب تک پولیس نے طاقت کا استعمال نہیں کیا۔ احتجاج کے دوران عرفان لغاری نامی شخص شدید زخمی ہوا جو بعد ازاں حیدرآباد کے ایک اسپتال میں دم توڑ گیا۔ عرفان کے اہل خانہ کا مؤقف ہے کہ اس کا کسی قوم پرست جماعت سے تعلق نہیں تھا اور وہ پُرامن احتجاج کر رہا تھا۔

تصادم کے فوراً بعد، صوبائی وزیر داخلہ کی رہائش گاہ، لنجار ہاؤس کو آگ لگا دی گئی۔ زاہد لغاری کے اہل خانہ کے مطابق، اس گھر کے نجی سکیورٹی گارڈ جو بھاری اسلحے سے لیس تھے، نے فائرنگ کی۔ زاہد، جو احتجاج میں شامل نہیں تھا بلکہ ذاتی کام سے وہاں گیا ہوا تھا، مبینہ طور پر سر میں گولی لگنے سے جاں بحق ہو گیا۔ اس کی عمر 27 سال تھی اور اس کی اہلیہ اس وقت اپنے پہلے بچے کی ماں بننے والی ہے۔

ایچ آر سی پی ٹیم نے متاثرہ گاؤں گوٹھ بجارانی لغاری کا دورہ کیا اور جاں بحق افراد کے اہل خانہ، مقامی صحافیوں اور اساتذہ کے بیانات قلم بند کیے۔ ٹیم نے مورو تھانے میں پولیس حکام سے ملاقات کی کوشش کی، لیکن ایس ایچ او نے یہ کہہ کر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا کہ اس معاملے پر صرف سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) بات کر سکتے ہیں۔ تاہم، موبائل سروس معطل ہونے کے باعث ایس ایس پی سے رابطہ نہ ہو سکا۔ ٹیم نے لنجار ہاؤس کا بھی دورہ کیا، مگر وہاں کسی نے ان سے ملاقات پر آمادگی ظاہر نہ کی۔

مشن کو اطلاع دی گئی کہ مبینہ طور پر 400 سے زائد افراد کے خلاف جھوٹے فوجداری اور دہشت گردی کے مقدمات درج کیے گئے ہیں اور سیاسی کارکن سمیت درجنوں افراد کو یا تو گرفتار لیا گیا یا وہ لاپتا ہیں۔ کئی ایف آئی آرز مورو سے دور اضلاع، جیسے کہ شکارپور اور میرپور خاص میں درج کی گئی ہیں۔ لنجار ہاؤس کو نذرِ آتش کرنے کے مقدمے میں حزب اختلاف کے سینیئر رہنماؤں کو نامزد کیا گیا ہے۔ 20 مئی سے اب تک علاقے میں موبائل سروس بند ہے، اور پولیس کی نمایاں تعداد میں موجودگی نے مقامی آبادی میں خوف کی فضا پیدا کر دی ہے۔

چونکہ یہ واقعہ صوبائی وزیر داخلہ کے حلقے میں پیش آیا اور ایف آئی آرز میں ان کے سیاسی مخالفین کے نام شامل کیے گئے ہیں، ایچ آر سی پی پولیس کی زیرِ قیادت تحقیقات، جس کا اعلان سندھ کے انسپکٹر جنرل پولیس نے کیا تھا، کی غیر جانبداری پر سوال اٹھاتا ہے۔ ہم سندھ حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر ایک آزاد عدالتی تحقیقات کا اعلان کرے تاکہ حقائق سامنے آسکیں، ذمہ داروں کا تعین کیا جا سکے اور تمام شہریوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔

اسد اقبال بٹ
چیئرپرسن