پریس ریلیز
شمالی سندھ میں امن و امان کی صورتِ حال خراب ، سیلاب زدگان کے لیے امداد سست روی کا شکار ہے: ایچ آر سی پی مشن
کراچی، 18 فروری 2023۔ شمالی سندھ کے لیے پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کا ایک اعلیٰ سطحی فیکٹ فائنڈنگ مشن مکمل ہواہے۔ مشن نے امن و امان کی صورتِ حال، صنفی بنیاد پر تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات، صحافیوں کے تحفظ اور سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی بحالیِ نو کے عمل میں سست روی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ریاستی اداروں اور ایجنسیوں پر بہت زيادہ سیاسی و جاگیردارانہ اثرورسوخ بھی مشن کے لیے فکرمندی کا سبب ہے۔ اس کی بدولت لوگوں کو انصاف تک مؤثر رسائی نہیں اور اُنہیں اپنے حقوق کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
مشن میں ایچ آر سی پی کی چیئرپرسن حنا جیلانی، وائس چیئر سندھ قاضی خضر حبیب، کونسل رکن سعدیہ بخاری، اور انسانی حقوق کے سینئر کارکن امداد چانڈیو شامل تھے۔ ایچ آر سی پی کے شریک چیئرپرسن اسد اقبال بٹ کے ہمراہ ٹیم نے گھوٹکی، کندھ کوٹ، جیکب آباد اور لاڑکانہ کا دورہ کیا۔
مشن کے لیے یہ اطلاعات خاص طور پر تشویش کا باعث تھیں کہ 2022 کے تباہ کن سیلاب سے متاثر ہونے والے خاندانوں کو اپنے گھروں کی تعمیرِ نو کے لیے ابھی تک معاوضہ یا امداد نہیں ملی۔ ڈپٹی کمشنر قمبر شہداد کوٹ نے مشن کو بتایا کہ صرف اِس علاقے میں 142,000 سے زیادہ گھرتباہ ہوئے تھے۔ مزید برآں، بڑے پیمانے پر اسکولوں کی تباہی نے بچوں کی تعلیم کو شدید متاثر کیا ہے، اور صورت حال میں بہتری کے آثار بھی نظر نہیں آ رہے۔
مشن کو یہ جان کر تشویش ہوئی کہ گھوٹکی میں اغوا برائے تاوان کے کم از کم 300 واقعات رپورٹ ہوئے۔ متاثرین کی زیادہ تر تعداد خواتین اور بچوں پر مشتمل تھی۔ پولیس کی اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے واقعات میں فوجی نوعیت کے ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا، جو مبینہ طور پر بلوچستان سے اسمگل ہوئے۔ اِس سے صوبائی سرحدوں پر سیکیورٹی کے نظام پر بھی اُنگلیاں اٹھتی ہیں، حالانکہ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ سرحد سے متصل سینکڑوں چیک پوسٹوں کی موجودگی میں ہتھیاروں کی منتقلی سے معلوم ہوتا ہے کہ سیکورٹی فورسز اِس عمل میں ملوث تھیں۔
مشن سے ملنے والے کئی لوگوں نے جبری تبدیلی کے مسئلے کو اجاگر کیا، اُنہوں نے کہا کہ اب وہ اپنی بیٹیوں کو اغوا ہو جانے کے خطرے کے سبب اسکول بھیجنے سے خوفزدہ ہیں۔ مشن کو ماورائے عدالت ہلاکتوں کی اطلاعات کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا نقطہ نظر بھی معلوم ہوا جن کا کہنا تھا کہ امن و امان کی خراب حالت کے پیشِ نظر پولیس مسلسل نشانہ بن رہی ہے۔
کندھ کوٹ اور جیکب آباد جہاں سے صوبے میں’ غیرت’ کے نام پر قتل کے سب سے زیادہ واقعات رپورٹ ہوتے ہیں، کے دورے کے دوران مشن کو یہ جان کر انتہائی تشویش ہوئی کہ متاثرین میں کم عمر لڑکیاں، شادی شدہ عورتیں اور یہاں تک کہ بزرگ خواتین بھی شامل تھیں۔ متاثرین کے اہلِ خانہ نے تحقیقات کے ساتھ ساتھ عدالتوں کارروائیوں میں غیرضروری طویل تاخیر کی شکایت بھی کی۔
مشن کو یہ تشویش ناک اطلاعات بھی ملیں کہ گھوٹکی، کندھ کوٹ اور لاڑکانہ میں مقیم صحافی قتل کی دھمکیوں، اغوا، حملوں اور من گھڑت مقدمات کی وجہ سے بااثر افراد کے خلاف رپورٹنگ کرنے سے خوفزدہ رہتے ہیں۔
لاڑکانہ کے دورے کے دوران، مشن کو معلوم ہوا کہ جبری گمشدگیوں کی اطلاعات بہت زیادہ ہیں۔ متاثرین کے اہلِ خانہ نے شکایت کی کہ وہ انکوائری کمیشن برائے جبری گمشدگان کی سماعتوں میں شرکت کے لیے کئی مرتبہ کراچی جانے پر مجبور ہوئے، اوراِس حوالے سے اکثر اُنہیں بھاری اخراجات برداشت کرنا پڑے۔ اہل ِخانہ نے یہ بھی بتایا کہ جب اُنہوں نے ایسے واقعات کی اطلاع دیں تو کئی بار اُنہیں نامعلوم افراد کی جانب سے دھمکی آمیز فون کالز موصول ہوئیں۔
حنا جیلانی
چیئرپرسن